احتجاج در احتجاج

احتجاج در احتجاج
یلغار فیصل شامی
احتجاج در احتجاج ایک دفعہ پھر جناب کپتان کے چاہنے والے احتجاج پر اتر آئے اور احتجاج کیا ہوا پورا ملک ہی میدان جنگ بن گیا شہر شہر گلی گلی جگہ جگہ کنٹینر لگا کے رستے بند کر دئے گئے پی ٹی آئی کے کارکن اپنے قائد کی آواز پہ لبیک کہتے ہوئے اسلام آباد کی طرف روانہ ہو گئے لیکن پی ٹی آئی کے کارکنوں کے لئے جگہ جگہ لگے کنٹینر رستہ روکنے کے لئے موجود ہیں پی ٹی آئی کے کارکن جو ہیں وہ جگہ جگہ سے کینٹینر ہٹا تے جا رہے ہیں اور اسلام آباد پہنچنے کے لئے رستےبنا رہے ہیں اور اسلام آباد کی طرف بڑھتے جا رہے ہیں جگہ جگہ سے پی ٹی آئی کارکنوں اور پولیس میں جھڑپوں کی خبریں بھی شدت سے سننے کو مل رہی ہیں اور گویا پورا ملک ہی میدان جنگ سا بنا نظر آ رہا ہے اور اطلاعات ہیں کہ جناب کپتان کی جماعت وفاقی دارالحکومت ریڈ زون ڈی چوک میں دھرنا دینے کی تیاری کر رہی ہے اور اسی لئے حکومت کارکنوں کو روک رہی ہے پکڑ رہی ہے دھمکا رہی ہے شائد اس لئے کہ کپتان کے کارکن وفاقی دارالحکومت نا پہنچ سکیں لیکن کارکن جوق در جوق رکاوٹیں ہٹا تے گرفتاریاں دیتے اپنا خون بہاتے ہوئے اسلام آباد کی طرف تواں دواں ہیں اور تاریخ پہ نظر ڈالیں تو احتجاج تو ہر دور میں ہوا ہے اور تاحال ہوتا آ رہا ہے ہمارا ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے اور دور جمہوریت میں سب کو اظہار رائے کی آزادی ہے اور ہمیں آج بھی یاد ہے کہ ہمارے بزرگ سیاستدان جناب جاوید ہاشمی صاحب جو ہیں انھوں نے کہا تھا کہ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے اور جہاں اختلاف رائے نہیں وہاں جمہوریت نہیں جی دوستوں یقینا سچ ہی ہے سب کو آزادی حاصل ہونی چاہئیے اظہار رائے کی اور ہم بات کر رہے تھے کہ احتجاج ہر دور میں ہوا سابق امیر جماعت اسلامی جناب قاضی حسین احمد صاحب مرحوم نے انسانی زنجیر بنا کے کشمیریوں کے حق میں احتجاج کیا اور سابق وزیراعظم شہید پاکستان محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی احتجاج کیا لاہور سے پنڈی حکومت کے خلاف ٹرین مارچ کیا اسی طرح سے نواز شریف کی جماعت نے بھی احتجاج کیا اور جناب طاہر القادری جو تھے انھوں نے نواز حکومت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے طویل ترین دھرنا دیا اور احتجاج کیا اور طویل ترین دھرنے میں جناب کپتان کی جماعت بھی شامل ہوئی اور اس وقت بھی بدترین تشدد ہوا توڑ پھوڑ ہوئی سرکاری املاک پہ حملہ بھی ہوا تھا اور اللہ اللہ کر کے جناب طاہر القادی اور عمران خان کا دھرنا ختم ہوا تھا کہنے کا مقصد یہ کہ احتجاج ہر دور میں ہوا لیکن پر امن ہی ہوا لیکن جب سے جناب کپتان کے چاہنے والوں نے احتجاج کا آغاز. کیا تو وہ احتجاج پر امن نا رہا مارڈھاڑ خون خرابے سے بھرپور ہو گیا اور یقینا حیران کن بات یہ بھی ہے کہ جناب کپتان اپوزیشن میں رہے تو احتجاج کرتے رہے اور جب حکومت میں رہے تب بھی احتجاج کا دامن ہاتھ سے نا جانے دیا اور پھر نو مئی کو جو کچھ ہوا وہ ملکی تاریخ کا بدترین سیاہ باب بن چکا ہے اور اب ایک دفعہ پھر جناب کپتان کی جماعت احتجاج در احتجاج کر رہی ہے اور یہ احتجاج جناب کپتان کی رہائی کے لئے ہے اور جناب کپتان کی رہائی کے لئے ہی جناب کپتان کے چاہنے والے جو ہیں وہ احتجاج کر رہے ہیں اور اسلام آباد پہنچ کے دھرنا دینا چاہتے ہیں اور اہل اقتدار کو یقین ہے کہ اگر احتجاج کرنے والے وفاقی دارالحکومت پہنچ گئے دھرنے پہ بیٹھ گئے تو دھرنا مظاہرین کو اٹھانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جائے گا تو بہر حال اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہو گا ویسے ہمارے بہت سے دوستوں کا مشورہ ہے کہ جناب وزیراعظم صاحب ملک بھر میں ایمر جنسی کے نفاذ کا اعلان کریں اور اقتدار پاک فوج کے حوالے کر دیں تاکہ ملکی معاملات بہتر ہو سکیں اور دیکھنا تو یہ بھی ہے کہ جناب کپتان کے چاہنے والوں کا احتجاج کیا رنگ لائے گا آیا حکومت جناب کپتان جو ہیں انکو رہا کر دے گی یا نہیں اور یقینا احتجاج جو ہو رہا وہ عوام کے لئے پریشانی کا باعث ہے عوام کو سفر کرنا مشکل ہو گیا اور سوشل میڈیا پہ ایک وہڈیو وائرل ہوئی کہ عمرہ کر کے واپس آنے والی فیملی کو بھی پولیس نے گرفتار کر لیا یقینا افسوس ناک خبر ہے یقینا احتجاج میں ہزاروں مظلوم و معصوم افراد بھی گرفتار ہو نگے جن کا احتجاج سے کوئی تعلق نا ہے تو بہر حال دیکھتے ہیں کہ اب کیا ہو گا ملکی حالات کس نہج پہ پہنچیں گے امن و امان کی صورتحال مزید بگڑے گی یا پھر بہتر ہو گی اور بالآخر جناب کپتان کو رہا تو کرنا ہی ہے آج نہیں تو کل تو بہر حال دیکھتے ہیں کہ جناب کپتان کے چاہنے والے اپنے شدید ترین احتجاج سے اپنے قائد عمران خان کو رہائی دلوا سکینگے یا نہیں اور احتجاج کب تک ہو گا یہ بھی کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن فی الحال اجازت تو لے ہی سکتے ہیں آپ سے ملتے ہیں جلد آپ سے دوستوں ایک بریک کے بعد تو چلتے چلتے اس امید کے ساتھ اجازت کہ مزید جو بھی ہو ملک وقوم کے لئے اچھا ہی ہو تو فی الحال الوداع دوستوں ملتے ہیں جلد ایک بریک کے بعد تو چلتے چلتے اللہ نگھبان رب راکھا