اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا

یلغار فیصل شامی

انتہائی افسوسناک خبریں سننے کو ملتی رہیں کہ ڈی چوک میدان جنگ بن گیا جناب کپتان کی جماعت کے رہنماوں کی طرف سے وفاقی دارالحکومت ڈی چوک پہنچنے کا اعلان کیا گیا ااور اسکے بعد موجودہ حکومت حرکت میں آئی وفاقی دارالحکومت اور جڑواں شہروں کے رستے بند کر دئیے گئے جگہ. جگہ ناکے لگا دئیے گئے رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں تاکہ جناب کپتان کے جیالے ڈی چوک نا پہنچ سکیں الیکن جناب کپتان کے جیالوں نے ڈی چوک پہنچنے کے لئے ساری رکاوٹیں توڑ دیں پولیس سے کپتان کے جیالوں کی جھڑپیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی پی ٹی آئی کارکنوں کی طرف سے. ڈی چوک پہنچنے کے لئے پولیس اہلکاروں سے بھی لڑقئی جھگڑا ہوتا رہا اور خبر سننے کو ملی کہ کپتان کی جماعت کے کارکنوں نے پولیس والوں کو مارا پیٹا بھی اور تازہ خبر ہے کہ کپتان کی جماعت کے ہاتھوں سے بدترین تشدد کا نشانہ بننے والے ایک زخمی پولیس اہلکار شہید ہو گئے اور پولیس اہلکار کی شہادت کی خبر ہر اخبار میں بڑی بڑی سرخیوں کے ساتھ لگی ہے جو کے یقینا انتہائی بری خبر ہے اور ایک خبر یہ بھی سامنے آئی کہ وزیراعلی کے پی کے کو بھی گرفتار کر لیا گیا اور نا صرف یہ بلکہ جناب کپتان کی بہنوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا اور جناب کپتان کی جماعت کے متعدد رہنماوں اور کارکنوں پہ بھی نا صرف مقدمات درج کئے گئے بلکہ گرفتاریاں بھی عمل میں لائی گئیں اور ایک انتہائی افسوسناک خبر یہ بھی اخبارات کی زینت بنی کے جناب کپتان کی جماعت کے جلسے میں امدادی کاروائیاں کرنے والے ریسکیو 1122 کے اہلکاروں اور ڈرائیورز کو بھی پولیس نے گرفتار کر لیا اور یہ یقینا موجودہ حکومت کی بدترین کاروائی ہو گی کہ انسانی جان بچانے والے مسیحاوں کو بھی گرفتار کر لے اور حکومت کے اس بدترین اقدام سے بھی حکومت کےخلاف عوام کے دل میں نا. جانے کیسے کیسے خیال آئیں کیونکہ میدان جنگ میں بھی امدادی کسروائی میں مصروف ڈاکٹرز اعر نرسسز کو خصوصی حفاظت میں رکھا جاتا ہے بہر حال یقین یہ انتہائی افسوسنک قدم ہے اور یقینا پی ٹی آئی کارکنوں کی طرف سے بھی حکومت اور ریاستی اداروں پہ تشدد کرنا بھی خلاف قانون ہے اسی لئے تو جنب کپتان اور انکی جمسعت کے کسرکنوں کے رہنماوں پہ بھی بغاوت اور توڑ پھوڑ کے مقدمات درج ہوئے اور جناب کپتان تو پہلے ہی جیل میں ہیں سرکاری مہمان ہیں اور آج سوشل مہڈیا پہ پوسٹ شئیر ہوئی جو کہ بزرگ سیاستدان جناب جاوید ہاشمی کی طرف سے کی گئی تھی اس کے مطابق جناب جاوید ہاشمی جو بزرگ ترین سیاستدان ہیں ان کے گھر پہ بھی پولیس نے دھاوا بول دیا اور جناب ہاشمی صاحب کے قریبی عزیز جو تھے انکو بھی گرفتار کر لیا گیا اور حیرانگی ہوتی ہے اس بات پہ کہ جناب ہاشمی بزرگ ترین سیاسی رہنما ہیں اور ایک وقت تھا جب میاں برداران کی جلا وطنی کے زمانے میں جناب جاوید ہاشمی نے ہی ن لیگ کی ڈوبتی کشتی کو سہارا دیا پھر ن لیگی قیادت سے اختلافات پیدا ہوئے تو پھر جناب کپتان کی جماعت میں شامل ہوئے پھر ایک وقت آیا کہ جناب کپتان سے بھی کچھ سیاسی اختلاف پیدا ہوئے اور عمران خان کے سابقہ دھرنے کی مخالفت کی اور اب ایک دفعہ پھر جناب ہاشمی کے گھر پہ پولیس دھاوا بھی افسوسناک ہے اور یقہنا اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے جہاں اختلاف رائے ہی نہیں وہاں جمہوریت ہی نہیں اور ہم نے بھی بے شمار دور دیکھے اپنی پچاس سال کی عمر تک پہنچنے میں جناب ضیاءالحقکا دور بھی دیکھا اور بہت سے حکمرانوں کا دور بھی دیکھا لیکن عمران خان کا سابقہ دور اور موجودہ حکومت نے سیاسی اقدار کی دھجیاں بکھیر دیں احتجاج بھی ہر دور حکومت میں دیکھا لیکن اس قسم کا بدترین تشدد اور ریاستی غنڈہ گردی بہت کم دیکھی یاد ہے محترمہ بے نظیر شہید کے دور اقتدار میں محترمہ کلثوم نواز صاحبہ مرحومہ کی گاڑی کو لفٹر سے اٹھا کے ہوا میں کھڑا کر دیا گیا لیکن اگر دیکھا جائے تو جناب کپتان کی حکومت میں تمام اخلاقی اقدار کی اور انتقام کی حدیں پار کی گئیں ن لیگ کے رہنماوں پہ مقدمات بنائے گئے اور انھیں جیلوں میں رکھا گیا اور آج مکافات عمل ہے جناب کپتان کی حکومت نے جو ظلم اپوزیشن میں کیا آج وہی اپوزیشن بتدر اقتدار آ کے اپنے بدلے پورے کر رہی ہے اور جناب کپتان جیل میں ہیں دنیا جانتی ہے کہ جناب کپتان پہ مقدمات سیاسی ہیں لیکن جیسے کو تیسا جس طرح سے جناب خان نے اقتدار میں رہتے ہوئے اپنے مخالفین کی دھلائی کی بالکل ویسے ہی آج جناب کپتان کے مخالف اقتدار میں آ کے جناب کپتان کے اراکین کی دھلائی کر رہے ہیں جناب کپتان کے اراکین کو نا احتجاج کرنے دیا جا رہا ہے اور نا ہی کوئی جلسہ جلوس اور حالیہ دنگا فساد بھی اسی وجہ سے ہوا کہ جناب کپتان کے اراکین کو احتجاج سے روکا گیا تھا اور اگر جناب کپتان کی جماعت کو اجتجاج جلسے سے نا روکا جاتا تو یہ نقص امن و امان کا مسئلہ ہی نہ پیدا ہوتا جیسا کہ جناب محمود اچکزئی نے بھی برملا کہا ہے کہ حکمرانوں کو خبردار کیا تھا کہ بانی پی ٹی آئی کو ضمانت پہ رہا کیا جائے اور حکومت رہا کرنے پہ تیار نہیں اور اگر دیکھا جائے تو ہمارا ملک پاکستان ہے اور قوانین کے مطاق قتل کے ملزمان کو بھی رہائی مل جاتی ہے اور یقینا اگر دیکھا جائے تو عوامی خواہشات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکوت کو جناب کپتان کو رہا کر دینا اہئیے اسی میں حکومت اور ملک کی بھلائی ہے تو بہر حال دیکھتے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن کے مابین کشما کش کیا رنگ لائے گی اور اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے یہ بھی وقت ہی بتا سکتا ہے تو ی الوقت. آجازت آپ سے دوستوں ملتے ہیں جلد آپ سے لیکن آس و امید کے ساتھ جو بھی ہو ملک و قوم کے لئے اچھا ہی تو بہر حال اجازت دوستوں ملتے ہیں جلد ایک بریک کے بعد تو چلتے چلتے اللہ نگھبان رب راکھا

About Author

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *