قصہ مختصر راولپنڈی سے وادی نیلم کے سفر کا

قصہ مختصر راولپنڈی سے وادی نیلم کے سفر کا
یلغار فیصل شامی
قصہ مختصر راولپنڈی سے وادی نیلم کے سفر کا
یلغار فیصل شامی
پہلے بھی بتا چکے ہیں کہ آجکل وفاقی دارالحکومت کے جڑواں شہر میں قیام پزیر ہیں اور تقریبا ایک ہفتہ ہو چکا ہے اور یقینا اسلام آباد ہمارا پسندیدہ شہر ہے اور اسی لئے جب بھی موقع ملتا ہے تو اسلام آباد کا رخ ضرور کرتے ہیں اور گزشتہ کئی سالوں کی طرح اس سال بھی نئے سال کا آغاز مری میں کیا بچہ پارٹی نے بھی ہمارے ساتھ مری میں ہی نئے سال کا آغاز کیا اور بچہ پارٹی سے مراد ہمارے تینوں صاحبزادے مصطفی اسد اور عبداللہ شامی ہیں اور سب بچوں کو مری میں برف باری دیکھنے کا شوق ہے اور سال کے آخر میں مری میں برف باری ہوتی ہے اور ہم سب بچہ پارٹی کے ساتھ انجوائے کرتے ہیں لیکن اس دفعہ ہم نے نئے سال کا تو آغاز مری میں ہی کیا لیکن حیرت ہوئی کہ اس سال تاحال ملکہ کوہسار یعنی مری میں تاحال برف باری نا ہو سکی ہے اور اس بات سے جہاں ہم پریشان ہیں وہیں اہل مری بھی پریشان ہیں کہ ابتک برف باری کیوں نا ہو سکی دسمبر جنوری میں نتھیا گلی بھوربن مری میں برف باری ہو جاتی ہے لیکن اس دفعہ نیا سال کا آغاز ہو چکا لیکن برف باری نا ہوئی اور بچہ پارٹی برف باری سے لطف اندوز نا ہو سکی اور چھوٹے صاحب جن کا نام عبداللہ صاحب ہے مری جا کے بھی یہی سوال کرتے رہے کہ بابا برف نہیں پڑی اور ہم چھوٹے صاحب کو تسلی دیتے رہے اور پھر ہم برف باری کی تلاش میں آزاد کشمیر ضلع نیلم ویلی جا پہنچے وادی نیلم بھی قدرتی مناظر سے مالا مال ہے دنیا بھر کی خوبصورت وادیوں میں وادی نیلم کا شمار ہوتا ہے اور ہمیں بھی بچہ پارٹی کے پرزور اسرار پہ وادی نیلم کا رخ کرنا پڑا مظفر آباد باغ گڑھی دوپٹہ سمیت آزاد کشمیر کے بہت سے شہر پہلے بھی دیکھ چکے تھے لیکن بچہ پارٹی کے ہمراہ برف کی تلاش میں پہلی دفعہ نیلم کا پروگرام بنا اور یہ بھی کہا جائے پروگرام تو بنا لیکن اچانک ہی بنا اسلام آباد سے نکلے بھوربن کی سیر کے لئے لیکن رستے میں ہی ہماری مسسز اور بچوں نے شور مچا دیا کہ بجائے مری بھوربن کے کسی نئی جگہ کا پروگرام بنایا جائے اور اسی لیے جاتے جاتے گاڑی کا رخ مظفر آباد کی طرف کر لیا مظفر آباد ہم پہلے بھی کافی دفعہ جا چکے ہیں اور مظفر آباد سے نیلم ویلی تقریبا 100 کلومیٹر کے فاصلے پہ ہے لیکن پہاڑی رستہ ہونے کے باعث تقریبا تین سے چار گھنٹےکا رستہ ہے مظفر آباد سے نیلم کا اور ہم تقریبا بارہ ایک بجے اسلام آباد سے نکلے
اور رات نو سے دس بجے کے قریب وادی نیلم پہنچے وادی نیلم پہنچنے سے پہلے مظفر آباد میں بچوں نے چائے پی اور یہ بھی بتا دیں گاڑی مختار علی چلا رہا تھا اسی لئے ہم فرنٹ سیٹ پہ فرصت سے بیٹھ کے سڑک کنارے قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہو رہے تھے مظفرآباد سے ہوتےہوئے ہم تقریطا نو ساڑھے نو بجے وادی نیلم پہنچے اور جب نیلم وادی مین داخل ہونے لگے تو ہمارا استقبال نیلم ویلی میں موجود ڈیم نے کیا کیا دلکش نظارہ تھا ڈیم کا اور ہم نیلم ڈیم کے نظارے لیتے ہوئے مزید آگے بڑھے اور باڑیاں سے پہلے پاک فوج کی چیک پوسٹ پہ ہمیں روکا گیا ہمارے شناختی کارڈ لے کے اندراج کیا گیا اور چیک پوسٹ پہ ہی موجود پولیس اہلکاروں سے ہم نے پوچھا کے کوئی گیسٹ ہاود یا ہوتل رات گزارنے کے لئے بتائیں تو چیک پوسٹ پہ موجود اہلکار نے نیلم گرینز کا پتہ بتایا ہماری گاڑی کا نمبر بھی نوٹ کیا اور ہمیں ٹیلی فون نمبر بھی
دیا لیکن یہ بھی بتا دیں کے نیلم ویلی میں کوئی بھی نیٹ ورک کام نہیں کرتا چیک پوسٹ سے ہی ہمیں بتایا گیا کہ
تین پل کراس کرنح کے بعد گیسٹ ہاوس آئیگا اور لڑکا باہر سڑک پہ آپکا انتظار کر رہا ہو فا اور یقینا ہم
نے اتنے خوش اخلاق پولیس اہلکار بھی کم ہی دیکھے ہونگے
اور چیک پوسٹ سے تھوڑا آگے آئے تو بلدیہ نیلم کے اہلکار موجود تھے پرچی کٹوانے کے لئے اور مختار علی نے تیس روپے کی پرچی کٹوائی اور ہم نے مزید معلومات کے لئے بلدیہ کی پرچی کاٹنے والوں سے گیسٹ ہاوس وغیرہ پوچھا تو انھوں نے بھی نیلم گرین گیسٹ ہاوس کا بتایا اور ہم جب تین پل کراس کر کے آگے پہنچے تو ہمیں سڑک کنارے ہی نیلم گرین گیسٹ ہاوس کا بورڈ نظر آیا اور سڑک کنارے ایک لڑکا بھی نظر آیا جسکا نام اسد
تھا جسکے متعلق ہمیں پولیس چیک پوسٹ سے پہلے ہی آگاہ کر دیا گیا تھا ہم نے گاڑی روکی اور سڑک کنارے موجود لڑکے سے پوچھا کہ آپ کا نام اسد ہے اور اسد متعلق بھی ہمیں چیک پودٹ پہ بتایا گیا تھا اور تقریبا رات ساڑھے نو دس بجے کے قریب نیلم پہنے اور نیلم کے شروع ہی میں رات گزاری
اور یقینا یاد گار رات تھی نیلم میں بچہ پارٹی کے ہمراہ اور جہاں. رات گزاری وہ جگہ بھی خوبصورت تھی اور جہاں رات گزاری وہاں کے لوگ بھی خوبصورت تھے اور اسد بھائی نے ہی بتایا جو کہ گیسٹ ہاوس کے اونر تھے کہ آزاد کشمیر ضلع نیلم میں بجلی مہنگی ہے لیکن کم ہی جاتی ہے اور باتوؑ باتوں میں معلوم ہوا کہ نیلم میں گھومنے کے بے شمار مقامات ہیں کٹن جہاں واٹر فال موجود ہے اور سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے اور دوسری طرف کیرن اور اس سے آگے شاردا اور اسد بھائی جو گیسٹ ہاوس کے اونر تھے ان سے اور. انکے ساتھی اظہر سے ہی معلوم ہوا کہ شاردا میں یونیورسٹی ہے جسے جنوں نے تعمیر کیا تھا اور. باڑیاں جہاں ہم نے رات گزاری وہاں سے تین سے چار گھنٹے کا رستہ تھا شاردا کا اور یہ بھی معلوم ہوا اسد کی وساطت سے کہ آزاد کشمیر ضلع نیلم میں سوئی گیس نہیں ہے ایل پی جی یا لکڑیوں کا استعمال ہوتا ہے اور ہمارے لئے بھی اسد بھائی نے لکڑیاں جنع کر کے آگ لگائی اور ہم ٹھنڈے موسم میں دریائے نیلم کے کنارے آگ سیکتے رہے
اور رات گئے سونے کے لئے لیٹے تو ساری رات دریائے نیلم کی موجوں کا شور ہمیں سنائی دیتا رہا اور رات گزارنے کے بعد صبح تازہ دم ہو کے کٹن کی طرف چل دئیے جہاں واٹر فال تھی اور کنڈل شاہی پہ واٹر فال پوائنٹ تھا جہاں تفریح کا خوطصورت پواِنٹ تھا ہم نے بھی کنڈل شاہی میں واٹر فال کے مباظر دیکھے اور وہیں ہمیں ایک ریسٹورنٹ نظر آیا جسکا نام لاہوری ڈیرہ تھا اور ہم نے وہیں باشتہ کیا اور. اس ریسٹورنٹ کے مالک بھی لاہور اقبال ٹاون کے تھے جنھوں نے نیا نیا ہوٹل اور ریسٹورنٹ لیز پہ حاصل کیا تھا ان سے بھی اچھی گپ شپ رہی اور ناشتہ کرنے کے بعد ہم نے نیلم ڈیم کا رخ کیا اور یہ بھی بتلا دیں کہ کٹن جاتے ہوئے دور پہاڑوں پہ برف نظر آئی جس کو دیکھ کے بچہ پارٹی خوش ہو گئی کہ کم از کم برف نظر تو آئی یہ بھی بتلا دیں کہ آزاد کشمیر کے آٹھ ضلع ہیں اور نیلم بھی آٹھ میں سے ہی ایک ضلع ہے لیکن قدرتی مناظر سے مالا مال ہے اور ہم تقریبا دس بجے کمرے سے نکلے اور کٹن کنڈل شاہی کی سیر کر کے واپس نکلے اور واپسی میں ڈیم کے نظارے لیتے ہوئے بھوربن ۔جا پہنچے اور بھوربن کے بڑے ہوٹل میں بچوں کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کے بعد واپس اسلا؟ آباد کے لئے روانہ ہوئے اور بھوربن سے براستہ مری موٹروے سے اسلام آباد پہنچے اور جب اسلام آباد روم میں پینچے تو رات کے دس بجے سے اوپر ٹائم ہو گیا تھا اور تھکاوٹ اس قدر ہو گئی تھی کہ کسی بات کا ہوش نہیں تھا مسلسل. دس سے بارہ گھنٹے کے سفر نے تھکا سا دیا تھا اور اسی لئے واپس کمرے میں پہنچتے ہی بستر میں چھلانگ لگائی اور کب نیند کی وادیوں میں کھو گئے کچھ خبر نا ہوئی تو دوستوں یہ تھا قصہ مختصر ہمارے راولپنڈی سے وادی نیلم کےسفر کا تو فی الحال اجازت دوستوں ملتے ہیں جلد بریک کے بعد تو چلتے چلتے اللہ نگھبان رب راکھا