نام نہاد صحافیوں کے خلاف بھی کاروائی ضروری ہے

دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے
یلغار فیصل شامی
سوشل میڈیا پہ اور واٹس ایپ گروپس میں ایک خبر گردش کرتی نظر آئی اور وہ خبر کچھ اسطرح سے تھی کے
لاہور ہائیکورٹ نے زیر حراست ملزمان کے میڈیا انٹرویوز پر پابندی لگادی
صحافیوں پر شہریوں کی گاڑی روک کر ان سے شناختی کارڈ وغیرہ مانگنے پر بھی پابندی لگادی
ٹریفک والوں کے ساتھ کھڑے ہو کر، منہ میں مائیک گھسا کر انٹرویو کیے جاتے ہیں، بند ہونے چاہئیں، لاہور ہائیکورٹ
کوئی صحافی کسی کو زبردستی بات کرنے پر کیسے مجبور کر سکتا ہے؟ لاہور ہائیکورٹ
ہر شخص جو کیمرہ اور مائیک لے کر چل پڑے اسے صحافی نہیں کہا جا سکتا، اور یقینا یہ خبر ہماری نظروں سے بھی گزری اور خوشی ہوئی کہ معزز عدالت کی طرف سے ہی یہ قدم اٹھایا گیا یقینا یہ بات بھی درست ہے کہ ہر مائیک اور کیمرہ اٹھانے والا صحافی نہیں ہو سکتا یقینا یہ ٹھیک بات ہے اور جب سے سوشل میڈیا کا استعمال عام ہوا ہے ہر شخص صحافی بننے کی دوڑ میں شامل ہونے کی کوشش کرتا ہے اور سوشل میڈیا پہ اکاونٹ بنا کے راہ چلتے موبائل سے تصویریں اور دیگر واقعات بڑھا چڑھا کے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پہ اپ لوڈ کرتے ہیں اور صحافی بن جاتے ہیں اور سوشل میڈیا کی وجہ سے یقینا شعبہ صحافت کو نقصان ہو رہا ہے جو واکنگ جرنلسٹ ہیں انکا حق مارا جاتا ہے اور جناب کپتان کی حکومت میں بھی سوشل میڈیا پہ پابندی لگانے کی کوشش کی گئی لیکن اس سے پہلے قانون نافذ ہوتا لیکن جناب کپتان کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا اور کچھ عرصے قبل بھی یہ خبر سننے کو ملی تھی کہ سوشل میڈیا پہ نام نہاد صحافیوں کے خلاف کاروائی شروع کی جائیگی اور اب معزز عدالت کی طرف سے ایک خبر سامنے آ رہی ہے اور اگر ایسا ہو گیا یعنی نام نہاد صحافیوں کے خلاف کاروائی ہو گی تو یقینا ہم جیسے فرض شناس محنتی جرنلسٹ سکھ و چین کی نیند سو سکیں تو بہر حال دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے لیکن فی الحال ہمیں دیں اجازت ملتے ہیں جلد بریک کے بعد تو چلتے چلتے اللہ نگھبان رب راکھا