میدان سیاست میں گرمی

تیل دیکھیں اور تیل کی دھار
یلغار۔ فیصل شامی
انتخابات کے آثار نظر آتے ہی میدان سیاست میں تیزی نظر آنے لگی سیاسی قائدین و کارکنا ن میں جوش و خروش امڈ آیا اور پاکستان مسلم لیگ کی قیادت نے ملک بھر میں سیاسی رانطوں کا آغاز کر دیا میاں نواز شریف کوئٹہ کا سیاسی دورہ کر چکے اور اب خبر ہے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت کی طرف سے کے پی کے میں سیاسی رہنماؤں سے ملاقات و رانطوں کا عزم ظاہر کر دیا گیا اور مولانا فضل الرحمان ُ ایم کیو ایم کے قائدین پاکستان مسلم لیگ چوہدری شجاعت گروپ سے بھی رابطوں کی خبریں سب کے سامنے ہیں اور آثار بتار رہے ہیں کہ ن لیگ آئندہ انتخابات میں بھی پھر پور تیاریوں کے ساتھ میدان میں اترے گی جبکہ دوسری طرف بلاول بھٹو جو ہیں وہ پی ڈی ایم حکومت میں وفاقی وزیر رہے اور بہت اہم وزارت پہ فائز رہے اور آجکل جناب بلاول بھٹو اپنے سیاسی مخالفین پہ الفاظ کے تیروں کی بوچھاڑ کر رہے ہیں اور اپنے مخالفین پہ بھرپور تنقید بھی کر رہے ہیں جن میں ن لیگ بھی شامل ہے یعنی کہ ن اور پیپلز پارٹی حمایتی جماعتیں تھی لیکن اب ایک دوسرے کی مخالفوں کی صف میں موجود ہیں اور ایک خبر ہے کہ کہا جا رہا ہے کہ جناب بلاول پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کی طرف سے وزارت عظمی کے امیدوار ہونگے اور اسی لئے جناب بلاول۔ نے گویا اپنی انتخابی مہم کا آغاز کر دیا اور اب دیکھتے ہیں کہ انتخابات میں یہ دونوں جماعتیں کس طرح کی کارکردگی دلھائینگی کچھ اندازہ نہیں لیکن یقینا میاں نواز شریف کی وطن واپسی
سے لیگی کارکنوں می تازگی نظر آ رہی ہے اور اب دونوں جماعتیں بڑے بڑے دعوے کر رہی ہیں تو وقت ہی بتائے گا کون بازی مارے گا لیکن تیسری جماعت جو کہ کپتان کی ہے وہ بھی مشکلات کا شکار ہے اور سابق یہ حکمران جماعت جو ہے وہ آنے والے انتخابات میں اپنے موجودہ چئیر مین سے محروم ہوتی نظر آ رہی ہے کیونکہ انٹرا پارٹی انتخابات کروانے کے مرحلے سے گزرنا ہے جسکے بعد جناب عمران خان سابق چئیرمین پی ٹی آئی ہو جائینگے اور جناب گوہر صاحب نئے چئیر مین پی ٹی آئی ہونگے لیکن سربراہ جناب کپتان ہی رہینگے اور جناب کپتان جیل میں اس لئے نئے چئیر مین کا انتخاب عمل میں لایا جائے گا اور کہا جا رہا تھا کہ جناب کپتان کی ہمشیرہ جو ہیں نئی چئیر پرسن ہونگی لیکن ایسا نہیں ہوا اور یقینا آنے والے انتخابات میں بلے کا ُنشان برقرار رکھنے کے لئے الیکشن کروائے جا رہے ہیں لیکن بلے کے نشان کے باوجود جناب کپتان انتخابی عمل سے باہر رہینگے اور یقینا آئندہ انتخابی دنگل جو ہے میں جناب کپتان حصہ لے سکیں لیکن جیل میں رہنے کے باوجود جناب کپتان کی جماعت کے امیدوار میدان میں اترینگے اور دیکھتے ہیں کہ جناب کپتان کے جیل میں رہنے سے جناب کپتان کی جماعت کے امیدواران کو فائدہ ہو گا یا نہیں اس بارے میں بھی کچھ نہیں کہا جا سکتا اور افواہ یہ بھی گردش کر رہی ہے کہ جناب۔ چوہدری سرور جو ہیں وہ تحریک انصاف
میں شامل ہو رہے ہیں اور یہ افواہ گزشتہ کئی دن سے ہر خاص و عام کی زبان پہ عام ہیں جناب چوہدری سرور بزرگ سیاستدان ہیں سابقہ گورنر پنجاب بھی اور دو۔ دفعہ گورنر بنے یعنی جناب کپتان اور ن لیگ دور حکومت میں بھی گورنر مقرر ہوئے اس وقت پاکستان مسلم لیگ کے چیف آرگنائزر ہیں اور آجکل ایک دفعہ پھر افواہوں کی زد میں اور یہ بات بھی وقت ہی بتا سکتا ہے کہ جناب چوہدری سرور واپس کپتان کی جماعت میں شامل ہونگے یا نہیں یہ۔ بات بھی وقت بتائے گا تو بہر حال انتخابی ماحول گرم ہوتا دکھائی دے رہا ہے تو بہر حال مزید کیا ہو گا میدان سیاست
میں کچھ کہا نہیں جا سکتا تو بہر حال اب تیل دیکھیں اور تیل کی دھار لیکن فی الوقت ہمیں دیں اجازت ملتے ہیں۔ جلد بریک کے بعد تو چلتے چلتے اللہ نگھبان رب راکھا