وادی نیلم : قدرتی حسن سے مالا مال

یلغار فیصل شامی

اسلام علیکم پارے پارے دوستوں سنائیں کیسے ہی امید ہے کہ اچھے ہی ہونگے اور ہم بھی خیریت سے ہیں اور جیسا کہ پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ آجکل وفاقی۔ دارالحکومت میں قیام ہے۔ اور اس دوران ہمیشہ کی طرح بھوربن اور نتھیا گلی میں بھی قدرتی نظاروں سے محظوظ ہوئے اور جب مری نتھیا گلی اور بھوربن کی خوبصورتی دیکھ کے دل بھر آیا تو ہم نے بچہ پارٹی کے پرزور اسرار پہ رخ کیا وادی نیلم آزاد کشمیر کا اور یقینا وادی نیلم جو قدرتی حسن سے مال مال بھیی ہے اور آزاد کشمیر کا خوبصورت ضلع کہ لیں صوبہ کہ لیں یا کچھ بھی کہہ لیں انتہائی خوبصورت تفریحی مقامات سے مالا مال ہے اور دریائے نیلم کے کنارے واقع ہے قدرت نے یوں سمجھ لیں کہ گویا کوٹ کوٹ کے حسن بھرا ہے وادی نیلم کے قدرتی و حسین مناظر میں اور وادی نیلم کی خوبصورتی ہی ہمیں بھی دیگر سیاحوں کی طرح اپنی طرف کھینچتی ہے اور وادی نیلم قدرتی حسن سے تو مالا مال ہے ہی لیکن وہاں رہنے والے کشمیریوں کے دل بھی دولت اخلاف و پیار سے مالا ممال ہیں یقینا کشمیری عوام مہمان نواز بھی ہے اور پاکستانی عوام سے پیار کرنے والی بھی اور شائد یہی وجہ ہے کہ آج بھی کشمیر کی ہر در و دیوار پہ اور بچے بچے کی زبان پہ کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ ہے اور کشمیر بنے گا پاکستان کے نعروں سے آزاد کشمیر کے در و دیوار بھرے پڑے ہیں اور ہم تین دن مری میں گزارے اور اسکے بعد وادی نیلم کا رخ کیا اور مری سے وادی نیلم کے سفر پہ روانہ ہونے سے پہلے ہی ہم نے نیلم ویلی باسیاں میں پیارے پیارے بھائی اسد خواجہ اور انکے بھائی اظہہر کو اطلوع کر دی تھی کہ ہم وادی نیلم آ رہے ہیں اور بتا دیں کے گزشتہ سال ہماری اسد بھائی اور اظہر بھائی سے ملاقات ہوئی جو باڑیاں میں نیلم گرین کے نام سے گیسٹ ہاؤس چلا رہے ہیں اور گزشتہ سال بھی ہم نے اسد بھائی کے گیسٹ ہاؤس میں قیام کیا تھا اور اسد بھائی سے اچھی۔ گپ شپ بھی رہی تھی اور اسی لئے ہم نے مری سے روانہ ہونے سے پہلے ہی اطلاع دیدی کہ ہم آ رہے ہیں اور دو کمرے ہمارے لئے بھی رکھ لیں سنبھال کے اور مری سے ہم صبح ناشتہ کر کے صبح گیارہ ساڑھے گیارہ بجے نیلم ویلی کے سفر پہ روانہ ہوئے اور مری ایکسپریس وے۔ سے کوہالہ پل پہنچے جہاُں سے آگے ضلع مظفر آباد پہنچے اور مظفر آباد سے نیلم پہنچے اور تقریبا شام کو پانچ چھ بجے نیلم ویلی میں داخل ہوئے اور وادی نیلم میں۔ داخل ہونے سے قبل ہی خوبصورت سا تفریحی مقام ہے جو کہ دھنی واٹر پوائنٹ کے نام سے منسوب ہے اور وہ اس لئے کہ وہاں خوبصورت سا چشمہ بھی ہے اور آبشار بھی اور یہ بھی بتلا دیں کہ چشمے اور آبشار کے پی کے میں اور وادی نیلم میں قدم قدم. پہ ملینگے اور سب سے بڑھکو جو چیز ملے گی وہ قدرتی موسم اور آب و ہوا اور قدرتی موسم و آب و ہوا بھی انسان کو تر و تازہ و صحت مند رکھتی ہے اور دھنی واٹر پوائنٹ پہ بھی عوام کا رش تھا ہم نے بھی وہاں کچھ. دیر قیام کیا اور وادی نیلم میں داخل ہوئے اور ودای نیلم داخل ہونے پہ ہمارا استقبال نیلم ڈیم نے کیا جو پانی سے بھرا ہوا تھا اور نیلم ڈیم کراس کرنے کے بعد کچھ کلومیٹر آگے آئے تو وہاں موجود پاک آرمی کی چیک پوسٹ تھی جہاں نیلم ویلی میں داخل ہونے والوں کی اینٹری کی جا رہی تھی ہم نے بھی اپنی اینٹری درج کروائی یعنی کہ ہم وادی نیلم میں داخل ہو چکے تھے اور وادی نیلم میں ہمارا قیام باڑیاں میں تھا اور جب ہم باڑیاں میں اپنی منزل نیلم گیسٹ ہاوس پہ پہنچے تو اظہر بھائی وہاں موجود تھے جنھوں نے ہمیں اپنے گیسٹ ہاوس میں خوش آمدید کیا اور ہمارا سامان کمروں میں رکھوایا اور تھوڑی دیر گپ شپ کی تو بچوں نے کہا کہ کٹن جانا ہے اور ہم بھی مان گئے اور شائد اس لئے کہ ابھی سورج غروب ہونے میں دو تین گھنٹے باقی تھے اور پھر ہم سامان کمروں میں رکھ کے کٹن کے لئے نکل پڑے بتاتے چلیں کہ کٹن میں خوبصورت تفریحی مقام کنڈل شاہی آبشار ہے جو عوام کی توجہ کا مرکز. ہے اور وہاں بچوں کے لئے جھولے. بھی لگے ہیں اور کھانے پینے کے لئے اچھے اچھے فاسٹ فوڈ پوائنٹ اور کھانے کے ہوٹل بھی موجود ہیں اور ان ہی پوائنٹ میں ایک پوائنٹ لاہوری ڈیرہ بھی ہے جو کہ صاف ستھرا کھانا عوام کو فراہم کر رہے ہیں اور اسکے اونر بھی ہمارے شہر لاہور کے علاقے اقبال ٹاون سے ہے اور کنڈل شاہی عوام کی توجہ کا مرکز ہے وہ اس لئے کہ وہاں بھی ایک بڑی آبشار موجود ہے اور جب آبشار سے پانی نکل کے نیچے ندی میں گرتا ہے تو کیا ہی خوبصورت نظارہ ہوتا ہے اور ہم نے بھی مصطفی عبداللہ اور اسد شامی کے ہمارہ جی بھی کے پانی کے نظارے لئے سیلفی و تصاویر بنائیں اور لاہوری ڈیرہ سے چائے بھی پی اور اتنی دیر میں سورج ڈھلنا شروع ہوا اور سورج کے ڈھلنے کے ساتھ ساتھ وہاں موجود عوام بھی واپس نکلنے لگی اور دیگر عوام کی طرح ہم نے بھی واپس باڑیاں جہاں ہم نے قیام کیا تھا کے لئے رخ کیا اور واپس نیلم گیسٹ ہاوس باڑیاں پہنچ گئے اور بچوں نے کھانا کھانے کی ضد کی تو ہم نے اسد بھائی کو کھانا. تیار کروانے کے لئے کہا اور تقریبا ایک گھنٹے بعد ہمارے لئے چکن کڑاہی اور گرما گرم روٹیاں جبکہ بچہ پارٹی کے لئے چکن بریانی تیار تھی سفر کی تھکاوٹ. بھی تھی اور بھوک بھی بہت لگی تھی اس لئے مزیدار سی کڑاہی مزے لے لے کے کھائی اور کھانا کھانے کے بعد. اظہر بھائی اور اسد بھائی کے ساتھ گپ شپ لگاتے رہے اور اسی دوران اسی گیسٹ ہاوس میں جہاں ہم موجود تھے اسی گیسٹ ہاوس میں کچھ مہمان اور آئے اور جب ان سے تعارف ہوا گپ شپ ہوئی تو معلوم ہوا کہ جناب سید ذاکر حسین صاحب کا تعلق مانسہرہ سے تھا اوع شعبہ وکالت کے پیشے سے وابستہ تھے اور وکالت اور صحافت کا تو ویسے بھی چولی دامن کا ساتھ ہے اور جناب شاہ صاحب سے بہت سے موضاعات پہ گفتگو ہوئی موجودہ ملکی اور غیر ملکی صورتحال پہ بھی خاصی گپ شپ رہی اور گپ شپ کرتے کرتے رات تین بج گئے اور اسی خوبصورت اور سیر حاصل گفتگو میں وقت کا پتہ ہی نہ چلا تین بجے کے قریب ہم نے جناب ذاکر شاہ صاحب سے اجازت لی اور سونے کے لئے اپنے کمرے میں چلے گئے اور دوسری صبح دس گیارہ بجے کے قریب آنکھ کھلی تو باقی سب کو بھی اٹھایا کہ تیاری کرو آگے بھی جانا ہے اور گیارہ ساڑھے گیارہ ہم اظہر بھائی کو روم بل دے کے اور سلام دعا لے کے رخصت ہوئے ہماری منزل شاردہ تھی اور شاردہ کے بارے میں بہت سے. قصے مشہور ہیں اور کسی زمانے میں ایک یونیورسٹی اور ایک مندر بھی تھا جو کہتے ہیں کہ جنوں نے بنایا تھا اور اب وہاں نا یونیورسٹی ہے اور نا ہی مندر لیکن چند نشانیاں ضرور موجود ہیں بہر حال ہم . نیلم گرءن گیسٹ ہاوس سے نکلے اور شاردا کا رخ کیا اور. شاردا کے ہی رستے میں آٹھ مقام رتی گلی پر نیلم کیرن بھی ہے جبکہ شاردا سے آگے گیل اور تاو بٹ آخری. شہر ہے وادی نیلم کا جو کہ کنٹرول لائن پہ ہے اور شاردا سے آگے صرف جیپیں ہی جا سکتی ہیں عام گاڑی نہیں جا سکتی اور ہم بھی شاردا ہی پہنچے لیکن شاردا سے پہلے اپر نیلم کے نظارے بھی کئے اور ناشتہ بھی اپر نیلم سے ہی کیا اور اپر نیلم سے ناشتہ کر کے پھر اپنی منزل شاردا کی طرف روانہ ہوئے اور شاردا پہنچتے پہنچتے تقریبا پانچ سے چھ گھنٹے لگ گئے اور شاردا کے رستے میں ہی دریائے نیلم کے نظارے بھی ہمسفر رہے اور رستے میں چشموں کے پانی سے بھی محظوظ ہوتے رہے اور جی بھر کے پیتے بھی رہے اور رستے میں کچھ دیر چشمے کے کنارے بہتے پانی میں پاوں رکھ کے بیٹھ گئے اور بچوں کے ساتھ تصاویر بناتے رہے اور چند دیر قیام کے بعد شاردا روانہ ہوئے اور شام ہونے سے کافی دیر پہلے شاردا پہنچ گئے یقینا شاردا بہت خوبصورت تفریحی مقام ہے وہاں عوام کی. تفریح کے لئے واٹر بوٹس بھی موجود ہیں جن پہ بچے بڑے خوشی سے گھومتے یعنی سفر کر کے محظوظ ہوتے ہیں اور بچہ پارٹی بھی پانی میں کھلتی رہی اور پانی کے اندر ہی لگی میز اور کرسیوں پہ بیٹھ کے ہم سب نے چائے پی سمموسے کھائے جبکہ مصطفی صاحب نے بریانی کھائی اور یہ بھی بتا دیں کہ شاردا پکنک پوائنٹ پہ پاک فوج اور پولیس کے جوان بھی تعینات تھے جن کی موجودگی سے عوام کو بھی اہنی. حفاظت کا احساس رہتا ہے یقینا پاک فوج کے جوان ہمہ وقت عوام کی نا صرف خدمت بلکہ حفاظت کے لئے بھی دن رات تیسر رہتے ہیں اور ہم نے بھی وادی نیلم کے رہاشیوں سے پاک فوج زندہ باد کے نعرے بھی سنے یقینا پاکستانی فوج عوام کی ہر دلعزیز فوج ہے جسکے جوان دن رات اپنی نیندیں حرام کر کے عوام کو سکون کی نیند فراہم کرتے ہیں اور وادی نیلم میؑ ہی ہم نے تازہ تازہ خبر بھارتی جاسوسہ کی گرفتاری کی سنی جسے چند روز قبل پاک فوج کے جوانوں نے گرفتار کیا اور اس سے قبل بھی پاک فوج کے جوان بہت سے جاسوس گرفتار کر چکے ہیں اور آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر جس پہ ہندوستان کا قبضہ ہے آمنے سامنے ہیں آزاد کشمیر اوپر ہے جب کہ ہندوستان نیچے ہے اور ہم نے بھی ہندوستانی پرچم بھارتی علاقوں میں دیکھے اور آمنے سامنے ہونے کی وجہ سے ہی بھارتی جاسوس چھپ چھپ کے پہلے آزاد. کشمیر اور بعد ازاں پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور یوینا خوشی کی بات ہے کہ ہمارے انٹیلی جینس ادارے بھارتی جاسوسوں پہ نظر رکھتے ہیں اور انکے ارادوں پہ پانی پھیر دیتے ہیں اور آزاد کشمیر میں یقینا پاک فوج بہت متحرک ہے اور شاردا میں بھی ہم جب داخل ہوئے تو پاک فوج کے جوان ٹریفک کنٹرول کر رہے تھے اور رش کے باوجود بھی منظم طریقے سے سیاحوں کی گاڑیوں کو پل پر سے گزار رہے تھے جسکے دوسری طرف خوبصورت ساتفریح مقام تھا جہاں ہم نے بھی ڈیڑھ دو گھنٹے گزارے اور پھر اس سے پہلے سورج غروب ہوتا ہم نے واپسی کا ارادہ کیا ہماری بیگم صاحبہ اور بچوں کا اسرار تھا اور ہمارا بھی. ارادہ تھا کہ تاو بٹ جو کہ کنٹرول لائن ہے کا دورہ بھی کر لیں لیکن وہاں کے مقامی افراد نے منع کر دیا کہ آگے گاڑی نہیں جاسکتی اور جیپ. کے سفر کے بغیر آپ تاو بٹ نہیں پہنچ سکتے اور شائد جیپ پہ سفر کرنے کا خیال سن کے ہی ہم نے شاردا سے واپس اسلام آباد کا رخ کیا اور رات تقریبا گیارہ بجے کے قریب نیلم وادی کو خیر باد کہا اور جب ہم مظفر آباد سے پندرہ بیس کلو میٹر پہلے تھے تو معلوم پڑا کہ لینڈ سلائڈنگ ہو رہی ہے اور لینڈ سلائڈنگ کا پتہ اس وقت چلا جب گاڑی کے سامنے سڑک پہ اچانک پتھر نظر آیا اور گاڑی پتھر پہ چڑھ گئی تو گاڑی روکی تو معلوم ہوا کہ لینڈ سلائڈنگ ہو چکی ہے اور پتھروں سے بڑی مشکل گاڑی نکالی اور پھر میں نے گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ چھوڑ. دی اور مختار کو. گاڑی چلانے کے لئے کہا یہ تو معمولی لینڈ سلائڈنگ تھی جہاں سے میں نے گاڑی بمشکل نکالی اور اس سے تھوڑا آگے نکلے تو تو پھر لینڈ سلائڈنگ نظر آئی جس پہ گاڑی پھنسی نظر آئی اور جب گاڑی سڑک کے درمیان نپھنسی ظر آئی تو پیچھے آنے والی گاڑیوں کی لائن لگ گئی اور جب گاڑیوں کی لائن لگی تو سب گاڑیوں سے نکل کے اس گاڑی طرف بھاگے جو لینڈ سلائڈنگ میں پھنسی ہوئی تھی سب نے مل کے دھکا لگایا اور مٹی اور پتھروں سے بمشکل گاڑی کو نکالا اور پھر اسکے بعد سب نے مل کے سڑک سے پتھر ہٹائے اور پیچھے آنے والی گاڑیوں کے لئے رستہ بنایا اور اسی رستے سے مختار نے گاڑی نکالی اوع جب لینڈ سلائڈنگ سے جب گاڑی نکلی تھوڑا آگے نکلے تو مختار علی بولا کہ چیک لائٹ جلنا شروع ہو گئی تو ہم نے کہا کہ مظفر آباد تک چلو پھر دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے اور اللہ اللہ کر کے مظفر آباد پہنچے اور پٹرول پمپ پہ گاڑی لگائی پٹرول ڈلوانے کے لئے اور پٹرول ڈلوانے سے قبل مختار علی اور ہم نے چیمبر کی بھی اور آئل ٹینک کا بھی جائزہ لیا تو سب کچھ ٹھیک لگا
اور تسلی کرنے کے بعد پٹرول کی ٹینکی فل کروائی اور پمپ سے نکلے اور آگے چوک پہ تسلی کے لئے وہاں موجود دو موٹر سائیکل سوار افراد جو سڑک کنارے موجود تھے ان سے رستے بارے معلومات حاصل کی کہ کوہالہ پل جانا ہے کس رستے سے جائیں تو ان موٹر سائییکل سوار افراد نے کہا کہ آپ کوہالہ پل سے نہیں جا سکتے ہم نے وجہ پوچھی تو معلوم ہوا کہ کوہالہ پل کے رستے پہ لینڈ سلائڈنگ ہو چکی ہے اور رستہ بند ہے تو ہمیں یہ بات سن کے پریشانی ہوئی تو ہم نے کہا کہ اسلام آباد جانا ہے کیا کریں تو انھوں نے کہا کہ آپ مانسہرہ جائیں وہاں سے ہزارہ موٹر وے پہ نکلیں اور وہاں سے اسلام آباد جائیں یہ سن کے ہم نے ان دونوں افراد کو شکریہ کہا اور آگے بڑھے تو اسی دوران ایک کوسٹر نظر آئی اور ہم نے ہاتھ دح کے کوسٹر کو روکا اور کوسٹر چلانے والے بھائی سے پوچھا کوہالہ پل جانا ہے تو اس پہ کوسٹر چلانے والے. ڈرائیور نے کہا کہ رستہ بند ہے آپ نہیں جا سکتے پہلے بھی ایک گاڑی پھنسی ہے جسے بڑی مشکل سے کرین نکالا گیاا ہے تو اس کوسٹر ڈرائیور سے بھی ہم نے پوچھا کہ پنڈک جانا ہے تو اس ڈرائیور نے بھی یہی کہا کہ مانسہرہ سے جائیں اور وہاں سح موٹر وے سے ہوتے ہوئے اسلام آباد پہنچ جائیں اور ہم نے گاڑی کا رخ مانسہرہ کی طرف کیا اور جب مانسہرہ روڈ پہ چڑھے تو بارش شروع ہو گئی اور نیا رستہ سنسان و خوفناک رستہ دیکھ کے دل میں ڈر بھی پیدا ہوا کیونکہ پہلی دفعہ اس رستے پہ سفر کر رہے تھے اور بڑی وجہ یہ تھی کہ رات کا ٹائم تھا اور بچہ پارٹی بھی ساتھ تھی رات کو تقریبا بارہ بجے ہم مظفر آباد سے نکلے تھے اور رات گئے جس سڑک پہ سفر کر رہے تھے وہاں گھپ اندھیرا تھا اور نا ہی رستے کا معلوم تھا وہ تو شکر ہوا کہ ایگ گاڑی ہنڈا ہمارے آگے رہی وہ بھی اسلام آباد ہی جا رہے تھے اور ہم نے ہنڈا والے بھائی کو ہاتھ کا اشارہ دیا اور رستہ پوچھا تو انھوں نے کہا کی ہم بھی اسلام آباد ہی جا رہے ہیں تو ہم نے شکر ادا کیا کہ خوفناک رستے پہ بھی امید کی کرن پیدا ہوئی اور ہم اس ہنڈا گاڑی کی رہنمائی میں مانسہرہ پینچے اور مانسہرہ سے ہزارہ موٹر وے پہ داخل ہو گئے اور سارا رستہ اللہ اللہ کا ورد کرتے ہوئے صبح سات بجے وفاقی دارالحکومت پہنچے اور جب نیلم سے نکلے تھے واپسی کے سفر پہ تو اچھی خاصی بارش شروع ہو گئی اور شدید بارش ہی لینڈ سلائڈنگ کا سبب بنی اور نیلم ویلی سے شروع ہونی والی بارش سارا رستے سفر میں ساتھ رہی اور مانسہرہ میں بھی تیز بارش کی وجہ سے گلیاں بازار پانی سح بھرے نظر آئے اور بارش کا ساتھ موٹر وے پہ بھی رہا اور ساری رات اور سارا دن مسلسل سفر کرنے کے بعد صبح سات بجے اسلام آباد پہنچے تو شدید زور دار قسم کی بارش نے پھر ہمارا استقبال کیا اور اسی زبردست بارش میں جب ہم اپنی رہائش گاہ پہ پہنچے تو صبح کے ساڑھے سات بج رہے تھے اور ہم نے اپی منزل پہ پہنچ کے اللہ پاک کا شکر ادا کیا اور یقینا دوستوں خوبصورت مزیدار اور آخر میں وادی نیلم شاردا سے اسلام آباد واپسی کا سفر خوفناک بن گیا اور یقینا زندگی کا یادگار سفر بھی بن گیا اور شائد ہی اس سفر کو کبھی ہم دل سے بھلا پائیں یا ذہن سے نکال سکیں تو بہر حال دوستوں یہ تھا حال ہمارے خوبصورت و خوفناک سفر کا تو فی الحال دوستوں اجازت چاہتے ہیں آپ سے تو ملتے ہیں جلد بریک کے بعد تو چلتے چلتے اللہ نگھبان رب راکھا

About Author

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *