ماں جیسی مشفق خاتون

ماں جیسی مشفق خاتون ۔بیگم کلثوم نواز ۔
انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔۔ !!!
یہ میرے اوائل جوانی کے دن تھے ، میں نے مسلم لیگ ہاوس کو بطور میڈیا اسٹنٹ نیا نیا جوائن کیا تھا ، جناب جنرل مشرف کا مارشلاء تھا ، مسلم لیگ ہاوس بھی چند ہفتے ہوئے تھا کھلا تھا ، جناب جاوید ہاشمی ، جناب شاہد خاقان ،،جناب غوث علی شاہ ، جناب صدیق الفاروق اور دیگر لیڈر شپ پابند سلاسل تھی ، باقی ماندہ لیڈر شپ سہمی سہمی خوفزدہ تھی یا پھر بغاوت کے لیے فوجی اشارے کی منتظر ۔
ایسے میں جناب راجہ ظفرالحق کی سربراہی میں قائم عبوری تنظیمی سیٹ اپ نے پارٹی کا جنرل کونسل کا اجلاس طلب کیا ، سیکرٹری جنرل جناب سرانجام خان نے ہمیں بلا کر بتایا اجلاس میں بیگم کلثوم نواز بھی آرہی ہیں مجھے خدشہ ہے کہ انکی آمد پر کچھ لوگ گڑ بڑ کریں گے ، بحرحال ہم نے انکا پرتپاک استقبال کرنا ہے ۔
اجلاس میں بیگم صاحبہ کی آمد پر کچھ نام نہاد اعلیٰ مرتبت سیاسی راہنماوں نے غیر اخلاقی رویہ اپنایا ، یہ وہی لوگ تھے جو میاں صاحبان کی شان میں دنیا جہان کی قصیدہ گوئی کرتے تھے ، حالات بدلتے دیکھ کر ان سب کا ایمان بھی بدل گیا تھا ۔
تاہم اس اجلاس نے بیگم صاحبہ کو ایک نئی سوچ دی کہ اگر حالات کو بدلنا ہے تو پھر انہیں خود میدان میں نکلنا ہو گا ، اپنے سسر کی اجازت سے جب وہ میدان میں نکلیں تو انہوں نے سیاست کا رخ بدل ڈالا ۔
ارب پتی گھرانے کی بہو نے ساری زندگی منکسر المزاجی میں گزاری ، وہ ایک وفا شعار بیوی ، عظیم ماں ، انتہائی دلیر ، نڈر اور بیباک اور قابل شخصیت تھیں ، شوہر کی محبت میں میدان سیاست میں اتریں اور دیکھتے دیکھتے سیاسی افق پر چھا گئیں۔ شوہر کو موت کے منہ سے چھیننے کے بعد شوہر کی محبت میں ہی دوبارہ گھر کی چار دیواری تک محدود ہوگئیں
یہ اعزاز بھی پاکستان کی سیاست میں انہیں ہی حاصل تھا کہ مسلم لیگ ن کی سیاسی تاریخ میں وہ پہلی خاتون ہیں جو 1999ءسے 2002ءتک پارٹی کی صدارت کے عہدے پر رہیں ۔ اس کے علاوہ وہ تین دفعہ 1990ءسے 1993ءتک 1997ءسے 1999ءتک اور پھر 2013ءسے 2017ءتک پاکستان کی خاتون اول بھی رہیں۔ وہ واحد ممبر قومی اسمبلی تھیں کہ جنہیں کامیابی کے باوجود بیماری نے بطور رکن حلف اٹھانے نہیں دیا ۔
بہادر اور وفادار بیگم کلثوم نواز وفا کی عملی تصویر تھیں ، اگر انہوں نے شاہی محلات دیکھے تو اپنے خاندان کی پریشانی میں گھر بھی نہیں بھٹیں ۔
جرات و بہادری کی علامت کلثوم نواز لاہور میں ایک کشمیری خاندان میں پیدا ہوئیں۔انہوں نے 1970ء میں اسلامیہ کالج لاہور سے بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ پھر انہوں نے 1972ء میںفارمین کرسچین کالج سے اردو ادب میں بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے علاوہ اردو شاعری میں جامعہ پنجاب سے ایم اے کیا۔کلثوم صاحبہ کے دو بہن بھائی ہیں۔ کلثوم نواز تین بار پاکستان کے وزیراعظم رہنے والےمیاں محمد نواز شریف سے شادی کی، جن سے ان کے چار بچے ہیں۔
محترمہ کلثوم نواز پاکستان کے معدودے چند ان سیاستدانوں میں شامل تھیں جن پر کرپشن کے کوئی الزامات نہیں ہیں، وہ ملکی سیاست کے اتاثر چڑھاﺅ اور پیچیدگیوں سے بھی واقف تھیں ، انہوں نے اس دور میں نواز لیگ کی قیادت کی ہے جب 1999ءمیں جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا اور نواز شریف کی وزارت عظمیٰ ختم کرکے انہیں جیل بھجوا دیا۔ اس دور میں بیگم کلثوم کی گاڑی کو کرین سے ہوا میں ملحق کرنے والی تصویر جب قومی اور بین الاقوامی اخبارات میں شائع ہوئی تو یہ تصویر بیگم کلثوم کی سیاسی جدوجہد و احتجاج کی علامت کے طور پر مشہور ہوئی۔ یہ مارشل لاءکا انتہائی سخت دور تھا لیکن وہ اپنی پارٹی کا جھنڈا اٹھائے آواز بلند کرتی رہیں۔ انہوں نے سخت پابندیوں میں پورے ملک کے دورے کیے ، جب وہ گھر سے نکلیں تو انہیں روکنے کیلئے ان کی گاڑی کو آگے سے اٹھا دیا گیا لیکن بیگم کلثوم کئی گھنٹے اسی حالت میں گاڑی کے اندر رہیں اور باہر آنے سے انکار کر دیا۔ بیگم صاحبہ نے پرویزمشرف آمریت کا مقابلہ بہادری سے کرکے ثابت کر دیاکہ وہ مشہور زمانہ گاما پہلوان کی دوہتی ہیں۔ یقینا بیگم کلثوم نواز شریف خاندان ایک بائینڈنگ فورس کی حیثیت رکھتی تھیں ۔
شاید بہت کم لوگوں کے علم میں ہو کہ کلثوم نواز صاحبہ پی ایچ ڈی ڈاکٹر تھیں۔ انہوں نے فلاسفی میں پی ایچ ڈی کر رکھی تھی ، کوئی مسلم لیگ ن اور جناب نواز شریف کی سیاست سے لاکھ اختلافات رکھے یا تنقید کرے لیکن اس کے باوجود بطور ایک صحافی، ایک پاکستانی اور ایک انسان ہونے کے ناطے میرا استدلال یہ ہے کہ پاکستان ایک انتہائی تعلیم یافتہ دھیمے لہجے میں گفتگو کرنے والی مدبر اور شفیق خاتون سے محروم ہو گیا ہے ، اللہ کریم غمزدہ خاندان کوصبر جمیل دے اور بیگم صاحبہ کی آخرت کی منازل آسان کرے ۔
آمین۔#غلاممصطفیٰملک


